Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر10

چچی۔۔۔؟؟ ہممم۔۔۔عالیہ ناگواری سے جواب دیا۔۔۔ وہ مجھے کچھ دیر کے لیے فون دے دیں۔۔۔مجھے سجل سے بات کرنی ہے۔۔۔ میرے فون میں بیلنس نہیں ہے۔۔۔عالیہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔ کیا اس نے بھی آپ کو کال نہیں کی۔۔۔؟؟ نہیں۔۔۔اسے کیا ضرورت ہے کال کرنے کی۔۔۔ اچھا۔۔۔ہانیہ خاموش ہوگئی۔۔۔اسے یقین نہیں تھا کہ اسکی بہن نے اس کا حال پوچھنے کے لیے فون نہ کیا ہو۔۔۔ جب آپ بیلنس کروائے تو میری ایک بار سجل سے بات کروا دیجیے گا۔۔۔ہانیہ نے التجا کی۔۔ میرے پاس فضول پیسے نہیں ہے جو تمہارے لیے بیلنس کرواتی پھروں۔۔۔۔میری ماہ نور بھی تو ہے نہ۔۔۔خود فون کرتی ہے میری اور اپنے ابا کی خیریت معلوم کرنے کے لیے ۔۔۔پر تمہاری بہن بھائی تو جیسے تمہیں بھول ہی گئے۔۔۔ویسے تم نے اپنی زندگی خود برباد کی ہے۔۔۔اپنے شوہر کے ساتھ رہتی آرام سے اپنی زندگی گزارتی بہن بھائیوں کے سامنے بھی عزت رہتی۔۔۔پر شاید اب بچارے اس لیے بھی تم سے رابطہ نہیں رکھتے کہی تم ان سے پیسے ہی نہ مانگ لو۔۔۔ناگواری سے کہتے ہوئے اپنے کپڑے سمیٹنے لگے۔۔۔۔ عالیہ بیگم کی بات پر ہانیہ کو شدید دکھ ہوا تھا۔۔۔پر اللہ‎ نے اسے ان کا محتاج کر دیا تھا بینا کچھ کہے کمرے سے جانے لگی۔۔۔ اچھا سنو۔۔۔ جی۔۔۔ہانیہ انکی آواز پر مڑی۔۔۔ یہ اپنے چچا کے کپڑے استری کر دینا۔۔۔اور یہ ماہ نور کی بیٹی کے کچھ کپڑے ہیں۔۔۔کہہ رہی تھی کسی غریب کو دے دینا۔۔۔پر میں نے سوچا غریب کو دینے کی کیا ضرورت ہے تمہاری چھوٹی بیٹی کو پورے آجاۓ گے۔۔۔یہ لو تم رکھ لو۔۔۔ ہانیہ نے ایک نظر اپنی بے حس چچی کو دیکھا اور خاموشی سے کپڑے پکڑ کر کمرے سے چلی گئی ۔۔۔۔۔


رات کو ایک دم ہانیہ کی آنکھ کھولی۔۔۔عجیب سی بیچانی نے گھیر رکھا تھا۔۔۔ہانیہ نے اپنے اوپر سے کمفرٹر ہٹایا۔۔ڈوپٹہ سیٹ کرتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ باہر آئی تو لاؤنج میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔کل سے نانو سے بھی اسکی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔اکیڈمی سے واپسی پر جب وہ گھر آئی تو بالکل خاموشی تھی۔۔۔زرینہ نے کہا تھا نانو کی طبیعت ٹھیک نہیں کوئی انھیں ڈسٹرب نہ کریں۔۔۔اور شازل بھی اپنا کمرہ بند کیے ہوۓ تھا۔۔۔ایسا کیا ہوا ہے اسکی غیر موجودگی میں جو پورے گھر میں اس قدر خاموشی ہے۔۔اپنے خیالوں میں گم ہانیہ لان میں آگئی۔۔۔ سامنے شازل کو دیکھ کر ایک پل کے لیے چونکی۔۔۔جو اس وقت سگرٹ ہاتھ میں پکڑے کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔۔رات کہ اس پہر شازل لان میں اور وہ بھی سگرٹ پی رہے ہیں ۔۔۔پھر سر جھٹک کر اسکے قریب آئی۔۔۔ شازل۔۔۔؟؟ہانیہ نے آہستہ سے پکارا۔۔۔ ہانیہ کی آواز پر شازل چونکا۔۔۔ ہاتھ میں پکڑی سگرٹ نیچے پھینکی اور جوتے سے مسل دی۔۔۔ تم اس ٹائم لان میں کیا کر رہی ہو۔۔؟؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔ شازل کی آنکھیں دیکھ کر ہانیہ پلک جھپکنا بھول گئی۔۔۔اسکی آنکھیں سرخ تھیں۔۔۔اور اسکی وجہ کیا تھی وہ نہیں سمجھ پائی۔۔۔ پھر سمبھل کر بولی۔۔۔ ایک دم آنکھ کھول گئی۔۔۔اور عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی تو سوچا کچھ دیر لان میں بیٹھ جاؤ۔۔۔لیکن آپ اس وقت یہاں کیا کررہے ہیں۔۔۔ہانیہ نارمل انداز میں بولتے ہوۓ اسکے قریب بیٹھ گئی۔۔۔ بس ایسے ہی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔شازل نے بینا اسے دیکھیں جواب دیا۔۔۔ آپ نے سگرٹ پینا کب سے سٹارٹ کیا۔۔۔؟؟ بس کبھی کبھی اپسیٹ ہوتا ہوں تو سموکنگ کرلیتا ہوں۔۔۔ اوو۔۔۔پر مت پیا کریں مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔وہ خود بھی نہیں جانتی تھی یہ بات اس نے کیوں کہی۔۔حلانکہ وہ تو اس پر ایسا کوئی حق نہیں رکھتی تھی۔۔۔ شازل نے نظراٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔جو شاید اپنی بات پر شرمندہ تھی۔۔۔ نہیں پیونگا۔۔۔ اسکی بات ہانیہ مسکرا دی تھی۔۔۔ ہانی۔۔۔؟؟ جی۔۔۔ہانیہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ آج ایک بات کہو۔۔۔جس بات کو وہ دل میں کئی سال سے دبا کر بیٹھا تھا آج بہت ہمت کرتے ہوئے ہانیہ کو کہنا چاہتا تھا۔۔۔وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کہے۔۔۔ شازل نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔۔ ہانیہ اسکے ایک دم ہاتھ پکڑنے پر ڈری تھی۔۔۔پر خود سے زیادہ اس پر یقین تھا۔۔۔اسلیے ہانیہ نے اپنا ہاتھ واپس نہیں کھینچا۔۔۔اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ہانی۔۔۔میں اپنی ساری زندگی تمہارے ساتھ گزرنا چاہتا ہوں۔۔تم وعدہ کرو چاہے جو ہوجاۓ تم میرا ساتھ نہیں چھوڑو گی ساری دنیا سے میرے لیے لڑ جاؤگی۔۔۔اسکی آواز میں قرب تھااور آنکھیں بھی پانی سے بھر گئی تھیں۔۔۔ ہانیہ کو اسکے ایسے اظہارے محبت پر کرنٹ لگا۔۔۔اسے یقین نہیں تھا شازل اس سے یہ بات اور وہ بھی اس طرح کریں گا۔۔۔ ہانیہ کو خاموش دیکھ کر شازل نے اسے پکارا۔۔۔۔ ہانی۔۔۔؟؟ اسکی آواز پر ہانیہ چونکی۔۔۔ پھر اسکی آنکھو میں دیکھا جس میں سچائی تھی اور اسکے لیے بے پناہ محبت۔۔۔ میں آپکا ساتھ کبھی نہیں چھوڑونگی۔۔۔چاہے جو ہوجاۓ۔۔۔ہانیہ نے اسے یقین دہانی کرائی۔۔۔ ہانی مجھے ڈر لگتا ہے۔۔اگر ہمارے بیچ کوئی آگیا تو کیا تم مجھے چھوڑ دو گی۔۔۔ کیا ہوگیا ہے شازل ہمارے بیچ کوئی نہیں آئے گا کوئی بھی نہیں۔۔۔ہانیہ جیسے اس سے زیادہ خود کو یقین دلارہی تھی۔۔۔ اگر انکل نے انکار کردیاتو۔۔۔۔؟؟شازل نے سوالیہ نظروں اسے دیکھا۔۔۔ اور شازل کے اس سوال کا ہانیہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔وہ حقیقت نہیں جانتی تھی پر بچپن سے یہی سنتی آئی تھی کہ شنواری صاحب آئمہ خالہ کو پسند نہیں کرتے وجہ کیا تھی یہ تو آج تک اسے بھی پتا نہ چل سکی۔۔ تم پھر خاموش ہوگئی۔۔۔ شازل مجھے نہیں پتا کہ ابو انکار کریں گے یا نہیں پر میں اتنا جانتی ہوں کہ میں کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔ہانیہ پر اعتماد لہجے میں بول رہی تھی۔۔۔ اور شازل اس کے اس قدر پر امید ہونے پر مسکرا دیا۔۔۔ کیا ہوا آپ مسکرا کیوں رہےہیں۔۔۔ وہ اس لیے کہ تم نے تو ابھی تک مجھے نہیں بتایا کہ تم مجھ پسند کرتی ہو۔۔۔اور یہ بات نانو کو فوراً بتا دی۔۔۔شازل اب اسکا موڈ ٹھیک کرنا چاہتا تھا اس لیے بات کا رخ مڑ دیا۔۔۔ شازل کی بات پر ہانیہ جھینپ سی گئی۔۔۔میں نے انھیں کچھ نہیں بتایا۔۔۔انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔۔۔ چلو اب میں بھی تم سے پوچھتا ہوں کہ ہانیہ شنواری کو شازل شیرازی سے محبت ہے۔۔۔شازل آنکھوں میں شوخی بھرے اب ہانیہ سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔ اسکے سوال پر ہانی مسکرا دی۔۔۔ جی شازل شیرازی ہانیہ شنواری کو آپ سے بہت محبت ہے۔۔۔کہتے ہوئے اندر کی طرف بھگ گئی۔۔۔ اور اسکے جاتے ہی شازل نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔یا اللہ‎ اسے میری قسمت میں لکھ دے۔۔۔دعا مانگتے ہوۓ ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے رخسار پر گرا تھا۔۔۔

   0
0 Comments